2011 کی بات ہے تب میں بی ایڈ کر رہی تھی پہلا سمسٹر تھا اور امتحان بالکل قریب تھے، میں سارا دن تیاری میں مصروف رہتی اور بیٹھی پڑھتی رہا کرتی۔
تب ہمارے گھر کی چھتیں لکڑی کی ہوا کرتی تھیں جن میں چڑیا بڑی آسانی سے گھونسلے بنا لیا کرتیں۔
اس وقت بھی ایک چڑیا ایک گھونسلا بنانے میں مسلسل مصروف تھی، (چِڑا کم کم ہی نظر آیا کرتا تھا )
پہلے تو میں اسے بھگانے کی کوشش کرتی رہی کہ گھونسلا نہ بنا پائے کیوں کہ ایک تو یہ کچرا بہت لے کے آتیں اور دوسرا، جس وقت یہ گھونسلے بناتی ہیں اس وقت گرمیوں کا سیزن ہوتا ہے اور چھت والے پنکھے بھی چل رہے ہوتے جس سے انکی جان ہر وقت خطرے میں ہوتی ہے۔
لیکن پھر مجھے ایک دن ایسا لگا کہ جیسے گھونسلے میں انڈے بھی موجود ہیں تو میں خاموش ہو گئی کہ اب کیا کیا جا سکتا ہے۔
پھر کچھ دن تک بچے بھی نکل آئے جو ہر وقت چوں چوں کی گردان لگائے رکھتے کہ کھانا دے دو، کھانا دے دو۔
انکی ماں بار بار انکو کھانا کھلانے جاتی، کبھی آتی کبھی جاتی اور مجھے ڈر لگا رہتا کہ پنکھا چل رہا ہے کہیں اسکو لگ نہ جائے۔
انکا نکھٹو باپ بچوں کے پیدا ہونے کے بعد کبھی نظر نہیں آیا تھا۔ ( ہو سکتا ہے اس نے کہیں نیا بیاہ رچا لیا ہو جو وہ اسطرح ان بیوی بچوں کو بھول گیا تھا 😄😄)
اکیلی چڑیا کی بھاگ دوڑ اور مشقت دیکھ کے میں اسکو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کے دیتی رہتی تاکہ اسکی کچھ مشقت تو کم ہو۔
کیونکہ بچوں کو پالنے کی اس بھاگ دوڑ میں وہ بہت ہلکان ہونے لگی تھی اور آہستہ آہستہ اپنی خوبصورتی کھو رہی تھی ۔
وہ خود کچھ نہ کھاتی تھی جو کچھ بھی چونچ میں لے کے جاتی وہ سب کچھ بانٹ کے اپنے تینوں بچوں کو کھلا دیتی
اس طرح کرتے کرتے وہ مجھ سے بہت مانوس ہو گئی تھی، میرے دائیں بائیں اڑتی رہتی، کبھی سر پہ آ بیٹھتی تو کبھی ہاتھ پہ، ( میں یہ دیکھ کے بہت خوش ہوتی) پھر روٹی کی ڈیمانڈ کرتی تو میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اسکے سامنے ڈال دیتی۔
ایک پیالے میں پانی بھی بھر کے رکھ دیتی جس سے وہ چونچیں بھر بھر کے اپنے بچوں کے لیے لے کے جاتی رہتی۔
میرے چھوٹے بہن بھائی بھی اس سے محظوظ ہوتے رہتے کہ جیسے ہم سب کو کوئی نیا کھیل مل گیا ہو۔
ہر وقت سر اٹھا اٹھا کے بچوں کو دیکھنے کی کوشش کرتے کہ وہ نظر آ جائیں مگر وہ ہمیں دیکھتے ہی چھپ جاتے ۔
ایک دن یونہی وہ روٹی کا ٹکڑا لے کے اڑی اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا
وہ اڑتے ہی سیدھا پنکھے سے جا ٹکرائی اور ایک سیکنڈ میں ہی زمین پر گر کر تڑپنے لگی میں نے اسے پانی پلانے کی کوشش کی لیکن وہ اسکے منہ سے دائیں بائیں نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مر چکی تھی ۔😥😥
اسکے بچے وہیں گھونسلے میں چیخ چلا رہے تھے کہ اماں اب کھانا لے بھی آؤ، بھوک بہت زیادہ ہو گئی ہے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ اب انکی ماں کبھی نہیں آنے والی 😞😞
اور انکا باپ نجانے اپنی کس دنیا میں گم تھا کہ اس نے بھولے سے بھی کبھی انکی خبر تک نہیں لی تھی😑😑
مر جانیوالی چڑیا کے بچے بھوک سے چِلا رہے تھے ۔
گرمی کا موسم تھا اور وہ بیچارے بھوک اور پیاس سے ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔
میں نے گھنٹہ آدھا گھنٹہ انہیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن میں ایسا کر نہیں پائی۔
لہٰذا ہمت کر کے کمرے کے اندر ،دیوار کے ساتھ بنی شیلف (جس پہ برتن یا کوئی ڈیکوریشن پیس سجاوٹ کے طور پہ رکھے جاتے ہیں ) پر چڑھ کر کھڑی ہو گئی تاکہ ان بچوں کو یا تو خوراک پہنچائی جائے یا پھر انکو ادھر سے نکال کے اپنی حفاظت میں رکھا جائے۔
بار بار ان تک خوراک پہنچانا وہ بھی کافی ہفتوں تک، ذرا مشکل ہی کام تھا اسلیے میں نے ان تینوں کو ایک ایک کر کے کپڑے سے پکڑا اور فی الوقت پلاسٹک کی جالی نما ٹوکری میں رکھتی گئی۔
وہ مجھ سے ڈر رہے تھے اور میں ان سے 🙃
کیونکہ مجھے انکی نرم و ملائم سی جلد عجیب ہی محسوس ہو رہی تھی اور ان کے منہ بھی عجیب ہی قسم کے تھے یعنی باچھیں
اور دوسرا جیسے ہی میں انکو ہاتھ لگاتی وہ فوراََ لپک کر میرا ہاتھ منہ میں ڈال لیتے کہ شاید ہماری ماں ہمیں کھانا دینے آئی ہے ، تو اس لیے بھی میں انہیں کپڑے سے ہی پکڑ رہی تھی تاکہ وہ مجھے کاٹیں نہیں ۔
انکو کسی محفوظ جگہ رکھنے کے لیے میرے پاس کوئی گھونسلے جیسی چیز تو نہ تھی البتہ میں نے ایک بڑی ٹوکری میں دو چار چھوٹے بڑے کپڑے اس طرح سیٹ کیے کہ انکو وہ گھونسلے کے جیسا ہی محسوس ہو جس میں وہ کھانا کھانے کے بعد چھپ کر سو بھی سکیں ۔
سمجھ نہیں آ رہا تھا انکو کیا ایسا کھلایا جائے کہ وہ آرام سے کھا سکیں جو نرم ہو اور چبانا بھی نہ پڑے کیونکہ چڑیا تو انکو اپنے منہ سے اچھی طرح چبا کے کھلایا کرتی تھی۔
بہرحال اب مقصود یہی تھا کہ کسی طرح بس کچھ خوراک انکے پیٹ میں چلی جایا کرے تاکہ یہ زندہ رہ کر اپنی اڑان بھرنے کے قابل ہو جائیں ۔
لہٰذہ تھوڑے سے چاول ابال کر انکو کھلانے کی کوشش کی جو انہوں نے معمولی سے انکار کے بعد ہبڑ دھبڑ کر کے کھانے شروع کر دیئے، جیسے وہ شکر منا رہے ہوں کہ چلو یہی سہی، کچھ کھانے کو تو ملا۔
پانی سے تھوڑی تھوڑی چونچیں تَر کرنے کے بعد وہ فوراََ اسی گھونسلے نما ٹوکری کے کپڑوں میں گھس گئے اور اسی کو اپنا مسکن سمجھ کر سو گئے ۔
پورے دن میں وہ وقفے وقفے سے یونہی چوں چوں کر کے کھانا مانگتے رہتے اور کھانا کھانے کے بعد خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہو جاتے۔
انکی حفاظت کے لیے اسی اونچی شیلف پر وہی گھونسلا نما ٹوکری رکھ دی گئی تاکہ بلی کی پہنچ سے دور رہ سکیں ۔
روزانہ کی اسی روٹین کی وجہ سے وہ مجھ سے کافی مانوس ہو چکے تھے اور عادی بھی ۔
اس لیےمیرے علاوہ کسی سے کھانا نہ کھاتے اور اپنے گھونسلے میں چھپ کے بیٹھے رہتے جب تک میں نہ سامنے آ جاتی۔
دن اسی طرح گذر رہے تھے،
سمسٹر کے پیپرز بھی چار چار دن کے وقفوں سے جاری تھے، کُل پانچ پیپرز تھے جو سیکنڈ ٹائم میں گھر سے تقریباً 30 کلومیٹر کی دُوری پر ہو رہے تھے ۔
جس دن میں پیپر کے لیے جاتی، اس دن میرے باقی فیملی ممبرز ان چڑیا کے بچوں کا خیال رکھتے تھے انکو کھانا کھلانے کی کوشش کرتے لیکن وہ بھوکے بیٹھے میرا انتظار کرتے رہتے اور کھانا نہ کھاتے تھے ۔
پیپر کے بعد جب شام کو میں گھر آتی تقریباً مغرب کی اذانیں ہو چکی ہوتیں
میں آتے ہی پہلے انکو کھانا دیتی پانی پلاتی، وہ مجھے دیکھ کے بہت خوش ہوتے، شور مچاتے اور چوں چوں کی آوازیں زور زور سے بلند کرتے۔
میرے پاس انکو تقریباً بارہ سے پندرہ دن ہو چکے تھے اور اس دوران اب وہ کافی بڑے بھی ہو چکے تھے، انکے پَر کُھلنے لگے تھے جن کو وہ پھڑپھڑاتے اور اڑنے کی کوشش بھی کرتے ۔
لیکن وہ ابھی مکمل اُڑ نہیں سکتے تھے اور نہ ہی ہم انکو باہر اڑنے دیتے کیونکہ وہ ابھی اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ باقی پرندوں یا جانوروں سے اپنی حفاظت کر پاتے،
لہٰذہ فوراََ انکو گھونسلے نما ٹوکری میں بند کر دیا جاتا۔
سمسٹر کے تین پیپرز ہو چکے تھے ، جس دن میں چوتھا پیپر دے کے گھر آئی تو گھر والوں نے بتایا کہ
تمھارا ایک چِڑا جو ان تینوں میں سے بڑا تھا، وہ اپنی اڑان بھر کے جا چکا ہے اور کچھ دیر ہم نے اسکا پیچھا بھی کیا تھا مگر وہ کافی دور نکل گیا تھا اور پھر واپس نہیں آیا۔
اگلے ایک دو دن میں دوسرے چِڑے نے بھی اپنی اُڑان بھر لی اور میرے سامنے ہی درختوں پر جا بیٹھا اور اپنے ہم جنس پرندوں کے ساتھ مگن ہو کر کہیں دور نکل گیا، میں بس کھڑی اسکو دور جاتا دیکھتی رہی ۔
۔
۔
۔
آخری پیپر میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا، میں اپنی تیاری میں خوب مگن تھی لیکن دل میں ایک اداسی کی کیفیت جگہ بنا چکی تھی جو ان چڑیا کے بچوں کے اڑ جانے کی وجہ سے تھی ۔
یہی سوچ کے دوبارہ تیاری میں مصروف ہو گئی کہ جانا تو انہوں نے تھا ہی تو افسوس کیسا؟
میرے پاس صرف ایک ہی چڑیا کا بچہ بچ گیا تھا اور وہ سب سے چھوٹا تھا اور کمزور بھی۔
اور وہ فی میل تھی یعنی چڑیا، باقی دونوں جو اُڑ چکے تھے وہ میل تھے۔
آخری پیپر ختم ہو چکا تھا اور ان پیپرز کا دیا گیا سٹریس بھی۔
پھر سارا دھیان میرا اس چڑیا کے بچے پر تھا جس کو تھوڑی زیادہ توجہ اور خیال کی ضرورت تھی تاکہ وہ بھی اڑ کر اپنی دنیا اور اپنی ہواؤں میں جا سکے۔
پھر کچھ دنوں کی محنت سے وہ بھی اس قابل ہو ہی گیا کہ وہ اپنے جیسے پرندوں میں اپنی دنیا میں جا سکے سو میں نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے اسے اڑا دیا، آزاد کر دیا۔
میں تاسف زدہ چہرے کے ساتھ وہاں کھڑی تھی اور امی پیچھے کہہ رہی تھیں ۔
نہ دل لگا پردیسی سے کہ انکا ٹھکانہ دور ہوتا ہے۔
یہ بے وفا نہیں ہوتے، انہیں جانا ضرور ہوتا ہے ۔
اختتام ۔۔۔
0 تبصرے