ذبیح ثانی عبداللہ بن عبدالمطلب

تعارف:

عبداللہ بن عبدالمطلب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد اور عبدالمطلب کے بیٹے تھے۔

آپکی کی شادی چوبیس سال کی عمر میں قریش کے ایک معزز گھرانے میں آمنہ بنت وہب سے ہوئی۔

شادی کے چند روز بعد عبدالمطلب جو کہ آنحضور ۖ  کے دادا اور عبداللہ کے والد تھے،  نے عبداللہ کو تجارت کی غرض سے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ ملک شام بھیجا

لیکن واپسی پر عبداللہ بیمار ہو گئے اور مدینہ منورہ میں ہی اپنے رشتہ داروں کے پاس ٹھہر گئے۔

عبدالمطلب نے عبداللہ کی خبر گیری اور واپسی کے لیے اپنے بیٹے حارث کو بھیجا لیکن مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی عبداللہ وفات پا کر مدینہ میں ہی مدفون ہو چکے تھے ۔وفات کے وقت انکی عمر پچیس سال تھی آپ نے ترکہ میں چند اونٹ اور بکریاں چھوڑیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت شکم مادری میں ہی تھے کہ یتیم ہوگئے اور حضرت عبداللہ کی وفات کے تقریباً پچپن دن بعد پیدا ہوئے۔

ذبیح ثانی کی وجہ تسمیہ :

عبداللہ بن عبدالمطلب کو ذبیح ثانی کیوں کہا جاتا ہے اور اسکی وجہ کیا تھی آئیے پڑھتے ہیں تفصیل کے ساتھ ۔

ذبیح ثانی کے معنی و مفہوم:

ذبیح کا مطلب ہے ذبح ہونے والا اور ثانی کا مطلب ہے دوسرا

یعنی دوسرا ذبح ہونے والا

تو مراد یہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں دوسرا ذبح ہونے والا شخص

سب سے پہلے اللہ کی راہ میں ذبح ہونے والے حضرت اسماعیل تھے جن کا لقب ذبیح اللہ تھا اور دوسرے ذبح ہونے والے حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب، اسی لیے انکو ذبیح ثانی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

ذبیح ثانی کے لقب کے پس منظر میں جو واقعہ پیش آیا تھا وہ درج ذیل ہے۔


واقعہ یہ تھا کہ چاہ زمزم  (زمزم کا کنواں) جو کہ حضرت اسماعیل اور انکی والدہ ہاجرہ کے پیاس سے بیتاب ہونے پر اللہ کے حکم سے وجود میں آیا تھا وہ اس وقت تو کنویں کی حالت میں کچھ عرصہ وہیں موجود رہا لیکن بعد میں مٹی کے نیچے کچھ اسطرح دفن ہوا کہ لوگوں کی زبان پر چاہ زمزم کا صرف نام باقی رہ گیا حتیٰ کہ اس کا مقام اور جگہ تک شناخت میں نہ رہا۔

حضرت عبدالمطلب جب الحاج کو پانی پلانے کی خدمت پر مامور ہوئے تو انہوں نے اپنے بڑے بیٹے حارث کے ساتھ ملکر چاہ زمزم کی جگہ کا کھوج لگانا شروع کیا لیکن بے سود رہا اور قریش نے بجائے انکی مدد کے الٹا ان باپ بیٹے کا مذاق اڑایا۔

پھر ایک روز خواب میں عبدالمطلب نے چاہ زمزم کا نشان دیکھا تو اسے کھودنا شروع کر دیا،  اس مقام پر چونکہ کفار نے اپنے دو بڑے بت اساف اور نائلہ رکھے ہوئے تھے تو وہ اس بات کے خلاف ہوئے کہ بتوں کو ہٹا کر کھدائی کی جائے اور اس بات پر وہ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو گئے۔

عبدالمطلب کی مَنت:

جب عبدالمطلب نے ان سب قبیلوں میں خود کو تنہا محسوس کیا اور اپنا کوئی مددگار نہ پایا تو اللہ کے ہاں منت مانگی کہ اگر چشمہ نکل آئے اور اللہ انکو دس بیٹے عطا کرے تو ان دس میں سے وہ ایک اللہ کی راہ میں قربان کر دیں گے۔

اللہ نے انکی یہ منت اور دعا قبول کی اور چند روز کی محنت کے بعد چشمہ بھی نکل آیا اور اللہ نے یکے بعد دیگرے انکو دس بیٹے بھی عطا کر دیے۔ زمزم کے نکلنے سے قریش میں عبدالمطلب کا سکہ بیٹھ گیا تھا اور پھر سب انکی سرداری اور بزرگی کے قائل ہو گئے۔

اب جب عبدالمطلب کے بیٹے جوان ہوئے تو چونکہ منت کو پورا کرنے کا وقت بھی آگیا تھا لہذا عبدالمطلب اپنے سب بیٹوں کو لے کر کعبہ گئے اور قربانی کے لیے قرعہ ڈالا جو حضرت عبداللہ کے نام نکلا۔

وہاں عبدالمطلب بہت پریشان ہوئے کہ منت بھی پوری کرنی ہے اور قربانی بھی اس بیٹے کی جو سب سے چھوٹا بھی ہے اور عزیز بھی، لیکن سب رشتہ داروں اور قریش کے سرداروں کے روکنے کے باوجود مجبوراً وہ عبداللہ کو لیے قربان گاہ کی طرف چل دیئے۔

آخر بڑی مشکل سے معاملہ ایک سجاع نامی کاہنہ کے پاس پیش کیا گیا اس نے کہا کہ تمھارے ہاں ایک آدمی کا خون بہا دس اونٹ ہیں لہذا عبداللہ کی جگہ دس اونٹ ذبح کرو پھر قرعہ ڈالو اور جب تک عبداللہ کا نام قرعے میں آتا رہے تب تک دس دس اونٹ اور بڑھاتے جاؤ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا یہاں تک کہ سو اونٹ ہو گئے

اگلی بار جب قرعہ ڈالا گیا تو وہ اونٹوں کے نام ہی نکلا لیکن عبدالمطلب نے اپنی تسکین کی خاطر بار بار قرعہ ڈالا اور اب ہر بار قرعہ اونٹوں کے نام ہی نکلتا رہا اس پر عبدالمطلب نے الله کا شکر ادا کیا اور سو اونٹ ذبح کیا اور اسطرح بڑی مشکل سے عبداللہ بن عبدالمطلب کی جان بچی ،اس وقت سے قریش کے ہاں ایک آدمی کا خون بہا سو اونٹ مقرر کیا گیا۔

چونکہ یہ واقعہ حضرت اسماعیل کے ذبح کے واقعے سے مماثلت رکھتا ہے اس لیے بھی حضرت عبداللہ کو ذبیح ثانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

والله اعلم

ایک تبصرہ شائع کریں

6 تبصرے