تعارف:
مسجدِ ضرار منافقین کی بنائی ہوئی وہ عمارت تھی جس میں وہ اکٹھے ہو کے مسلمانوں کے خلاف خطرناک سازشوں کا جال بُننا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انہوں نے اپنی منافقت کے مطابق اس عمارت کو مسجد کا نام دے دیا جس کا ذکر قرآن میں مسجدِ ضرار کے نام سے آیا ہے یعنی ضرر یا تکلیف پہنچانے والی۔
جلد ہی الله کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسکی حقیقت سے آگاہ کر دیا گیا اور آپ صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے حکم پر اس مسجد کو جلا دیا گیا کیونکہ یہ مسجد نہیں، تفرقہ بازی کا ایک گھڑ بننے جا رہا تھا اسی لیے اسکا خاتمہ کرنا ضروری تھا۔
واقعہ کی تفصیل:
واقعہ کچھ یوں تھا کہ مدینہ کے ایک قبیلے بنی خزرج کا ایک آدمی جس کا نام ابو عامر تھا وہ عیسائی ہو کر رہبانیت اختیار کر چکا تھا اور اسکی علم شناسی کی وجہ سے جاہل عربوں کے لوگ اسکی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور اسکی درویشی کا چرچا بھی خوب ہو رہا تھا اور اسی وجہ سے وہ کچھ غرور میں بھی آگیا ہوا تھا۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے تب اسکی مسیحیت کا کاروبار عروج پر تھا۔
آپ صلعم نے اسے بھی اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے حق کو قبول کرنے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حریف اور دشمن سمجھ لیا اور آپ کی دشمنی پر آمادہ ہو گیا۔
کچھ عرصہ تو وہ یہی خیال کرتا رہا ہے قریش کی طاقت ہی اسلام کو ملیا میٹ کرنے کے لیے کافی ہے اور اپنے علم شناسی کے ہوتے ہوئے بھی عقل اور ایمان سے محروم رہا۔ لیکن جب جنگِ بدر میں کفارِ مکہ کو شکستِ فاش کا سامنا کرنا پڑا تو وہ کافی بددل ہوا اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کے خلاف ایک بار پھر سے کمر بستہ ہو گیا۔
ابو عامر راہب نے ہر جنگ میں چاہے وہ جنگِ احزاب ہو،حنین ہو احد ہو یا کوئی اور حق و باطل کا معرکہ ہو، سب میں کفارِ مکہ کا ساتھ دیا اور مسلمانوں اور اسلام کی مخالفت کی۔ اس مقصد کے لیے وہ مختلف قبائل میں جا کر اسلام کے خلاف تبلیغ بھی کرتا رہا اور ان سرگرمیوں میں کفار بھی اسکے پیش پیش تھے۔
جنگ احد میں بھی اس نے اپنی دُشمنی خوب نبھائی اور اسکے تعصب پر مبنی مشوروں کی وجہ، اس جنگ میں جس گڑھے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گر کر زخمی ہوئے وہ گڑھے اسی کے کھدوائے ہوئے تھے۔
پھر جنگ احزاب میں بھی یہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا اور مدینہ پر جو لشکر چاروں اطراف سے چڑھ آئے تھے اس میں بھی اسی کی کارستانیاں شامل تھیں۔
غرض یہ کہ جنگ حنین تک جتنی بھی حق و باطل کی لڑائیاں ہوئیں ان میں یہ اسلام کے خلاف ایک سرگرم رکن اور شرک کا زبردست حامی رہا۔
آخر کار جب کفار ہر طرف سے ناکام ہوئے اور ابو عامر پر مایوسی کے گہرے سائے آن پڑے تو اس نے عرب کو چھوڑ کر شام کا رخ کیا تاکہ وہاں سے اسلام کے خلاف مدد لی جا سکے اور وہاں سےایک خط منافقین مدینہ کو لکھا کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ روم کا بادشاہ اپنی فوجیں لے کر مدینہ کے مسلمانوں پر حملہ کر کے انکو ختم کر ڈالے لہذا اس مقصد کے لیے تم کوئی ایسی عمارت بناؤ جو بظاہر تو مسجد ہو مگر حقیقت میں اسلام کے خلاف سازشوں کا گھڑ ہو اور اس میں تم خفیہ ہتھیار بھی جمع کر رکھو تاکہ وقت آنے پر اسلام کے خلاف استعمال کیے جا سکیں۔
اور اس میں جو کوئی ہمارا ایجنٹ وغیرہ بھی آئے تو انکو مسافروں کا نام دے کر اس مسجد میں ٹھہرایا جائے اور سازشوں کے جال بننے میں آسانی رہے۔ اسطرح مذہب کے نام پر پردہ بھی رہے گا اور کسی کو کوئی شبہ بھی نہ ہوگا۔
یہ تھی وہ ناپاک سازش جس کے تحت مسجدِ ضرار بنائی گئی۔
یہ مسجد قبا کے علاقے میں تیار کروائی گئی، قبا میں پہلے سے بھی ایک مسجد، مسجدِ قبا کے نام سے موجود تھی جس کی بنیاد تقویٰ تھی لیکن اس مسجد کی بنیاد صرف اور صرف تفرقہ بازی پھیلانے کے لیے تھی۔
جب یہ مسجد تیار ہوگئی تو منافقین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ چونکہ مسجد قبا بہت سے لوگوں کو دور پڑتی ہے لہذا ہم نے کمزور اور ضعیف لوگوں کی آسانی کی خاطر یہ نزدیک میں مسجد تعمیر کی ہے تاکہ جب کبھی موسم کی خرابی پیدا ہو تو دور جانے کا مسئلہ نہ ہو۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی کہ آپ اس میں آکر نماز پڑھیں تاکہ اس سے برکت حاصل ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت تو غزوہ تبوک میں شمولیت کی وجہ سے منع فرما دیا اور کہا کہ تبوک سے واپسی پر اگر الله نے چاہا تو اس میں ضرور نماز پڑھوں گا۔
یاد رہے یہ غزوہ تبوک بھی اسی ابو عامر کی چالبازیوں کی وجہ سے وقوع پزیر ہوا کیونکہ اسی نے قیصر روم کو اس جنگ پر اکسایا تھا۔
بہرحال جب آپ صلعم تبوک کی طرف روانہ ہو گئے تو منافقین نے اپنی سازشوں کے جال بننے کی رفتار تیز کر لی اور یہاں تک منصوبہ سازی کر لی کہ جیسے ہی اہل روم کے ہاتھوں مسلمانوں کا قلع قمع ہو گا فوراً ساتھ ہی عبداللہ بن ابی سلول کے سر پر تاج رکھ دیں گے جو منافقین کا سردار تھا۔
لیکن اللہ کو مسلمانوں کی حفاظت اور اسلام کی سربلندی مقصود تھی لہذا مدینہ منورہ سے کچھ پہلے ذو اوان کے مقام پر وحی کے ذریعے منافقین اور اس مسجد کی حقیقت سامنےآگئی اور یہ آیات نازل ہوئیں اور اس میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا گیا۔
0 تبصرے