آجکل اپر کلاس لوگ کتے بلیوں کو پالنا اچھے سٹیٹس کی علامت سمجھنے لگے ہیں اور خود کو گوروں جیسا خیال کر کے ان کتے بلیوں کو اپنی اولاد کہہ کے پکارتے ہیں کہ "میرا بچہ" "میرا بے بی" "میرا شونو" وغیرہ وغیرہ۔
اولاد سے کیا مراد ہے بھلا؟
اولاد تو وہ ہوتی ہے نا جو انسان خود پیدا کرتا ہے؟؟
پیدا کرنے کا مطلب جانتے ہیں نا آپ؟؟
تو کیا اِنہوں نے ان کتے بلیوں کو خود پیدا کیا ہے؟؟؟
مطلب؟
مطلب کچھ بھی ۔۔۔
اور وہ کتے بلیاں جو ہیں ہی ناپاک اور نجس، وہ انکے ساتھ مل بیٹھ کے کھاتے پیتے ہیں، سوتے ہیں، جاگتے ہیں اور یہ انکی غلاظتیں بھی خوشی خوشی صاف کر رہے ہوتے ہیں تب انکو کسی قسم کی کراہیت بھی محسوس نہیں ہوتی۔
اور یہ چیز میں نے اچھے اچھے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں میں بھی دیکھی ہے۔
اور اگر ان سے کہا جائے کہ یہ کیا رویہ ہے یا یہ کیا عجیب حرکت ہے ۔۔۔
تو جواب آتا ہے کہ آپکے دل کو اللہ نے سخت کر رکھا ہے، آپ میں احساس و ہمدردی کی کمی ہے جو آپکو ان جانوروں سے نفرت یا کراہیت محسوس ہو رہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
ارے بھئی اگر آپکو جانوروں سے اتنی ہی ہمدردی ہے یا جانور پالنے کا اتنا ہی شوق ہے تو حلال جانور پال لو۔
مرغیاں پال لو ، بکریاں پال لو یا کوئی اور حلال جانور جو آپکو فائدہ بھی دے اور نجاست کا خدشہ بھی نہ ہو۔
یا پھر اس قدر ہی آپکے دل میں اللہ نے ہمدردی پیدا کر رکھی ہے یا احساس سے بھرا دل ہے تو یہ احساس انسانیت کے لیے کیوں نہیں جاگتا؟
کسی غریب کو دیکھ کر تو انکو اُبکائیاں آنے لگتی ہیں، بدبو محسوس ہوتی ہے ، گندگی کا ڈھیر لگتے ہیں وہ
تب انکا نرم دل کہاں چلا جاتا ہے تب اللہ کی مخلوق سے انسیت کیوں محسوس نہیں ہوتی انکو؟؟؟
یہی احساس و ہمدردی کسی انسان کے بچے کے لیے دکھاؤ تو آپکا یہ احساس کا دعویٰ بھی سچا ہوتا دکھائی دے۔
یا پھر اگر یہی نجس جانور ہی پالنے ہیں تو کسی حد میں رہ کر پالیں ناکہ ایسے کہ انسانوں سے بڑھ کے انکی اہمیت محسوس ہوتی ہو۔
بات یہ ہے کہ
جو جانور ہیں ہی نجس اور ناپاک، انکو گھر میں اسطرح رکھ کر نجاست پھیلانے سے اچھا ہے حلال جانور رکھ کر انکو رزق میں برکت کا ذریعہ بناؤ۔
بھیڑ بکریاں پالنا تو انبیاء کرام کی سنت بھی ہے جبکہ کتے بلیاں سراسر نجاست ہیں اور احادیث میں بھی ہے کہ جہاں نجاست ہو وہاں فرشتے نہیں آتے۔
یہاں کوئی فتویٰ نہیں جھاڑا جا رہا نہ ہی میں کوئی اس قابل ہوں بلکہ بات انسانوں اور جانوروں میں فرق کی ہو رہی ہے، بات پاکی اور ناپاکی کی ہے اگر کوئی سمجھنا چاہے تو۔
لہٰذہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہمیں بہت غور کرنے کی ضرورت ہے جن کو ہم معمولی خیال کر کے نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اور اگر پھر بھی نہیں سمجھنا تو مرضی ہے آپکی
ویسے بھی کونسا ہم اعمال کے مسلمان ہیں۔
نام کے ہی تو رہ گئے ہیں بس
0 تبصرے