ایثار کے معنی ہیں
قربان کرنا، قربانی دینا
دوسروں کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دینا،اپنے سے دوسرے کا فائدہ مقدم جاننا، دوسرے کے نفع کو اپنے نفع پر ترجیح دینا
خود کو نظر انداز کر کے دوسرے کا فائدہ کرنا
اِسلام نے معاشرے کو بہترین بنانے کے کئی طریقے عطا فرمائے ہیں اور مختلف آداب و اطوار اور اخلاقیات بھی سکھائے کہ معاشرہ اور اسکے افراد باہم مربوط ہوجائیں انہی اخلاقیات میں سے ایک ہے ایثار "sacrifice ".
ایثار کی اہمیت:
ایثار ایک مومن کی اعلیٰ صفات میں سے ایک اعلیٰ صفت ہے۔
اپنے لئے تو ہر کوئی کماتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ کمایا ہوا مال اپنے ساتھ ساتھ غریبوں اور مسکینوں پر بھی خرچ کرے،جذبَۂ ایثار اپنے پرائے، جان پہچان اور امیر غریب کی خودغرضانہ قید سے آزاد ہوتا ہے۔ بغیر مطلب دوسروں کے کام آنا بہت اعلیٰ ظرفی کی بات ہے۔
اگر معاشرے سے ایثار و قربانی ختم ہو جائے تو معاشرہ تباہی کا شکا ہو جاتا ہے۔
ایثار کا مطلب صرف یہ نہیں کہ دوسروں کو صرف کھانے پینے اور لباس پوشاک میں اپنے اوپر ترجیح (Priority) دی جائے بلکہ موقع محل اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے دوسروں کو خود پر ترجیح دینا بھی ایثار کہلاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایثار کی مثالیں:
جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر کام کا پہلے خود عملی نمونہ پیش کیا اور اسکی ترغیب دے کر اس پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا اسی طرح ایثار کے متعلق بھی انکی سنت موجود ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکینوں اور محتاجوں کا بہت خیال رکھتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔آپ خود بھوک کی حالت میں ہوتے اگر اس وقت کوئی بھوکا آپ سے سوال کرتا تو آپ قرض لے کر یا کسی سے کہہ کر بھی اسکی ضرورت ضرور پورا کرتے۔
1۔ ایک بار ایک شخص آپ صلعم کے پاس آیا اور سوال کیا۔آپ نے فرمایا ابھی میں خالی ہاتھ ہوں تم میری طرف سے کسی سے قرض لے لو میں ادا کر دوں گا۔
2۔ حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ انصار میں سے بعض لوگوں نے آپ سے دستِ سوال کیا تو آپ نے انہیں کچھ عطا فرمایا، انہوں نے پھر سوال کیا آپ نے پھر عطا فرمایا یہاں تک کہ جو آپ صلعم کے پاس تھا وہ سب ختم ہوگیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔میرے پاس جو کچھ بھی ہوگا میں تم لوگوں سے بچا کر نہ رکھوں گا۔پھر آپ نے فرمایا جو شخص سوال کرنے سے بچا رہے اللہ اسکو بچا لے گا، جو صبر کرے اللہ اسکو صبر دے گا اور صبر سے بہتر اور بڑھ کر کوئی چیز اور بخشش نہیں جو کسی کو دی جائے۔
3۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلعم نے فرمایا۔
اے ابو ذر اگر احد کا یہ پہاڑ میرے لیے سونا ہوجائے تو میں کبھی بھی یہ پسند نہ کرونگا کہ تین راتیں گذر جائیں اور ان میں سے ایک بھی دینار میرے پاس رہ جائے، البتہ کسی کو ادا کرنے کے لیے کچھ چھوڑ دوں۔
4۔ ایک مرتبہ حضور صلعم عصر کی نماز کے بعد خلاف معمول فوراً اندر تشریف لے گئے اور باہر آ گئے۔ لوگوں کو تعجب ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے یاد آیا بیماری کی سخت تکلیف اور بے چینی ہے اور کچھ اشرفیاں گھر میں پڑی ہیں۔
حکم ہوتا ہے خیرات کردو کیا محمد صلعم اپنے رب سے اسطرح ملے کہ اشرفیاں گھر پڑی ہوں۔
5۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا، وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کے کھائے اور اسکا پڑوسی بھوکا رہے۔بہتر صدقہ یہ ہے کہ تُو کسی بھوکے کو کھانا کھلائے۔
یہ چند ایک مثالیں ہیں جو بیان کی گئی ہیں
آپ صلعم کی ساری زندگی محبت اور ایثار و قربانی کا عملی نمونہ تھی اور اسی ایثار کا پیغام انہوں نے اپنی امت کو بھی دیا تاکہ بہترین اسلامی معاشرہ تشکیل پا سکے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم سنت نبوی پر عمل کرکے معاشرے کے غریب لوگوں کا احساس کریں اور اپنے رزق میں سے کچھ حصہ ان پر قربان کریں تاکہ معاشرے سے غربت و افلاس کا خاتمہ ہو سکے اور سنت نبوی کی پیروی بھی تاکہ آخرت میں بھی سرخرو ہو سکیں۔
0 تبصرے