حضرت ذوالقرنین اور انکی مُہمات Hazrat Zulkarnain and his campaigns


تعارف:

ذوالقرنین کا لغوی معنی "دو سینگوں والا" کے ہیں۔

ذوالقرنین کون تھے؟ 

زمانہ قدیم سے ہی اس بارے میں مختلف آراء رہی ہیں کہ ذوالقرنین آخر کون تھے؟ ذوالقرنین نبی تھے یا کوئی اعلیٰ قیادت کی شخصیت؟ 

قرآن مجید میں ذوالقرنین صرف لقب کے طور پر استعمال ہوا ہے اس لیے باقاعدہ شخصیت کی نشاندہی مشکل ہے 

البتہ قدیم اور جدید تاریخ کی قیاس آرائیوں میں کچھ لوگ اسے سکندر قیاس کرتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ ذوالقرنین ایران 

کے ایک بادشاہ "سائرس" کا لقب تھا۔ تاہم وہ نبی نہیں تھے۔ واللہ اعلم 

قرآن میں ذکر:

قرآن مجید میں حضرت ذوالقرنین کا ذکر کچھ یوں ہوا ہے۔

ترجمہ :

اور یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں ۔آپ کہہ دیجیے کہ میں انکا تھوڑا سا حال تمھیں پڑھ کے سناتا ہوں۔ ہم نے اسے زمین میں قوت عطا فرمائی تھی اور ہر چیز کے سامان بھی عنایت کر دیئے تھے۔ (سورۃ الکھف)

یعنی اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ضرور کوئی بہت بڑے فاتح تھے اور اللہ تعالیٰ نے انکو بادشاہت عطا کر رکھی تھی اور ہر قسم کے اسباب و وسائل بھی انکے پایہ اختیار میں تھے۔

قرآن مجید میں انکی فتح کے متعلق تین مہمات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں انکے تین لمبے لمبے سفر شامل ہیں۔ اور یہ سفر اللہ کی وحدانیت کو پھیلانے اور دعوت و تبلیغ کی خاطر بھی کیے گئے۔

پہلا سفر/مہم:

حضرت ذوالقرنین نے فتوحات کی غرض سے اپنا پہلا سفر مشرق سے مغرب کی طرف کیا اور فتح کے جھنڈے گاڑتے ہوئے وہاں تک پہنچے کہ اس سے آگے مغرب کی کوئی آبادی نہ تھی اور وہ آخری آبادی تھی، اور وہاں حدّ نظر وسیع سمندر پھیلا ہوا تھا اور سمندر بھی ایسا کہ جیسے سیاہ رنگ کی دلدل۔

اور شام کو جب سورج غروب ہوتا تو ایسے معلوم پڑتا جیسے سورج ایک سیاہ دلدل میں ڈوب رہا ہے۔

اس بستی کے لوگ کافر تھے،  حضرت ذوالقرنین نے اس بستی کو جب فتح کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ اب تو تم انکو فتح کر چکے ہو اب تمھاری ہی مرضی ہے کہ ان سے جو چاہے سلوک کرے ہاں لیکن اگر حسن سلوک کا معاملہ کرتے ہو تو یہ سب سے بہتر ہے۔

ذوالقرنین نے کہا کہ چونکہ یہ اب میرے مفتوح ہیں تو جو کوئی ظلم و زیادتی کرے گا اسکو میں ضرور سزا دونگا یعنی جو دعوت حق کو قبول نہ کرے گا تو اسکے لیے سزا ہے اور وہ آخرت میں بھی مشرک ہونے کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا مزہ چکھے گا۔

اور جو توحید پر ایمان لے آئیں گے انکے ساتھ میں حسن سلوک ہی کا معاملہ رکھونگا۔

دوسرا سفر/مہم:

ذوالقرنین نے اپنے دوسرے سفر کا آغاز مشرق کی جانب کیا اور ایسے علاقے تک پہنچے کہ وہاں مہذب دنیا کا نام ونشان بھی ختم ہوگیا اور وہ لوگ وحشی قوموں سے تعلق رکھتی تھیں اور ٹیکنالوجی سے اس قدر دور تھیں کہ وہ اپنے گھر بنانا بھی نہیں جانتے تھے۔ اور وہ سب کھلے میدانوں میں رہتے تھے ذوالقرنین نے اللہ کے حکم کے مطابق وہاں فتوحات کیں اور اللہ کی دی ہوئی طاقت اور وسائل سے انکو روشناس کروایا۔

تیسرا سفر/مہم:

ذوالقرنین کا تیسرا سفر اور سب سے بڑی مہم دو پہاڑوں کے درمیان جا کر اختتام پذیر ہوئی۔اس سفر کی سمت کی قرآن پاک میں کوئی واضح نشاندہی نہیں کی گئی ۔آراء ہیں کہ یہ سفر شمال کی طرف کیا گیا تھا جو کہ شمال کی انتہائی آبادی تھی اور وہاں کے لوگوں کی زبان بالکل مختلف تھی کہ کوئی بات بھی سمجھنے کے قریب نہ تھی اور ان پہاڑوں کے پاس ہی یاجوج ماجوج کی قوم بھی آباد تھی۔

وہاں کے لوگوں نے جب ذوالقرنین کے بڑے وسائل دیکھے تو ان سے یاجوج ماجوج کی قوم کی شکایت کی کہ انہیں انکے ظلم سے نجات دلائی جائے ۔

یاجوج ماجوج دو وحشی قبیلے تھے جو پہاڑوں کے پیچھے رہتے تھے اور وقفے وقفے سے پاس کی آبادیوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے رکھتے تھے۔

علاقے کے لوگوں نے یاجوج ماجوج کی قوم سے نجات پانے کے لیے ذوالقرنین کو مشورہ دیا کہ پہاڑوں کے درمیان ایک دیوار بنا دی جائے تاکہ انکا راستہ روکا جا سکے اور اسکے لیے انہوں نے ذوالقرنین کو کچھ معاوضے کی بھی پیشکش کی لیکن ذوالقرنین نے معاوضہ لینے سے منع کر دیا بلکہ صرف افرادی قوت مانگی اور کہا کہ جو وسائل مجھے اللہ نے دے رکھے ہیں وہی کافی ہیں، میں تم لوگوں کو ان کی غارت گری سے ضرور نجات دلواؤں گا۔

اس مقصد کی غرض سے ذوالقرنین نے قوم کو کہا کہ مجھے لوہے کے ایسے بڑے بڑے ٹکڑے لا دو جن سے دیوار بنائی جا سکے اور پھر دیواروں پر آگ جلا کر انکو بالکل آگ کر دیا اور پھر اسکو سیسہ پلائی دیوار بنا دیا جس کو پار کرنے کی طاقت اس وحشی قوم (یاجوج ماجوج ) میں نہ رہی تھی اور نہ ہی وہ اس دیوار کو توڑ سکتے تھے۔

اسطرح ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کو تاقیامت اس سیسہ پلائی دیوار کے پیچھے بند کر دیا اور فرمایا یہ سب میرے رب کی مہربانی ہے کہ مجھے اس مقصد میں کامیاب کیا بے شک اس کا وعدہ سچا ہے ۔

یاجوج ماجوج کی قوم قرب قیامت اللہ کے حکم سے دیوار کو توڑ لیں گے  لیکن یہ ایک الگ قصہ ہے۔ 

تاہم ذوالقرنین اللہ کے حکم سے ان تمام مہمات میں کامیاب ٹھہرے اور اللہ کے پسندیدہ بندے بن گئے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے