یوں تو تاریخ سے مجھے کچھ خاص دلچسپی نہیں
لیکن جہاں بات آتی ہے لاہور اور مینار پاکستان لاہور کی تو وہاں دلچسپی سے بڑھ کر ایک خاص انسیت اور لگن سی محسوس ہوتی ہے۔
مینارِ پاکستان لاہور وہ جگہ ہے جس سے کئی ایک داستانیں وابستہ ہیں اسکے چپے چپے سے آزادی کی خوشبو آتی ہے اسکے وجود میں ہمارے بزرگوں کی قربانیاں بسی ہیں ۔
مینارِ پاکستان وہ تاریخی جگہ ہے جہاں پہ کھڑے ہوکر ہمارے بزرگوں نے بغاوت کا نعرہ لگا کر آزادی کا علم بلند کیا تھا۔
جس جگہ پہ آج یہ مینار کھڑا ہے پہلے یہاں ایک پارک تھا جو "منٹو پارک" کے نام سے مشہور تھا جو اب "اقبال پارک" کہلاتا ہے اسی پارک میں آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو ان کی محنتوں کا ثمر قرارداد کی منظوری کی صورت ملا جو "قرارداد لاہور" کہلایا اور بعد میں "قرارداد پاکستان" کے نام سے مشہور ہوا یہ قرارداد داد 23 مارچ 1940ء میں منظور ہوئی ۔
اس قرارداد کی یاد تازہ رکھنے کے لیے آزادی کے تقریباً 12 سال بعد یہاں پہ یہ مینار بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسکے منتظمین تعمیر کا خرچ چندے سے جمع نہیں کرنا چاہتے تھے پھر ایک تجویز کے مطابق فنڈ سینما گھروں اور گھڑ دوڑ کی ٹکٹوں سے اکٹھا کیا گیا۔
تعمیر کا کام 23 مارچ 1960ء میں شروع ہوا اور یہ تعمیر تقریباً آٹھ سال میں مکمل ہوئی۔ تعمیر پہ تقریباً 70 سے 75 لاکھ کا خرچ آیا جو سارا سینما گھروں اور گھڑ دوڑ کی ٹکٹوں پر اضافی ٹیکس لگا کر حاصل کیا گیا تھا۔
اسکا ڈیزائن ایک ترک ماہر تعمیرات نے بنایا اور یہ خدمت بلامعاوضہ پیش کی گئی۔
یہ مینار 18 ایکڑ رقبے پر محیط ہے، اسکی اونچائی 196 فٹ ہے اور اسکی 324 سیڑھیاں ہیں اب ایک لفٹ بھی جدید طرز پر بنوائی جا چکی ہے۔
اسکی مزید خوبصورتی کے لیے بھی کافی اقدامات کیے جا چکے ہیں۔
مینارِ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی اس پر کافی اعتراضات اٹھائے جاتے رہے کہ اس کے لیے صوبہ پنجاب اور لاہور ہی کیوں منتخب کیا جائے؟؟
تاریخ دانوں کے مطابق ایسا اس لیے ہے کہ آزادی کی جدوجہد کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں لاہور اور پنجاب نے دیں، بڑے سے بڑے نام لاہور نے پیدا کیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرارداد پاکستان یہاں پہ منظور ہوئی۔
اگر قرارداد، لاہور کی بجائے کہیں اور منظور ہوتی تو مینار کی تاریخی حیثیت وہیں سے منسوب کی جاتی۔
اس لحاظ سے لاہور ہی اس حیثیت کا اصل حقدار ہے۔
مینارِ پاکستان، پاکستان کا قومی مینار بھی ہے۔
جون 1984ء میں LDA لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اسے اپنی
تحویل میں لے لیا تھا۔
0 تبصرے